واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ محمد باقی باللہ

رحمتہ  اللہ  علیہ

حضرت باقی باللہ   رحمتہ  اللہ  علیہ  کی ولادت ۵ ذوالحج ۹۷۱ھ یا ۹۷۲ھ میں کابل میں ہوئی۔ تصوف و طریقت کی تعلیم حضرت خواجہ محمد امکنگی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ نیکی تقویٰ و صلاحیت کے پیش نظرحضرت امکنگی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو اجازت و خلافت سے نواز کر اشاعت اسلام کے لئے ہندوستان بھیجا۔ آپ ہی پہلے وہ بزرگ ہیں جنہوں نے سرزمین ہند کے لوگوں کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے آشنا کیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کابل سے ہجرت کرکے پہلے آپ لاہور تشریف فرما ہوئے، کچھ عرصہ لاہور میں قیام کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور آخر تک وہیں قیام فرما رہے۔ آپ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے خلیفہ و نائب ہیں۔ نیز بین الاقوامی شہرت کے حامل محدث و فقیہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ بھی آپ سے فیضیاب ہوئے اور انہوں نے اپنے رسالہ موصل المرید الیٰ المراد میں یہ تصریح فرمائی کہ نسبت فنا و بقا حاصل کرنے کے لیے طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں۔ عجز و انکساری (جو کہ فقیری کا ایک خاصہ ہے) کا آپ پر اس قدر غلبہ رہتا تھا کہ اگر کسی فقیر سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو فرماتے تھے ”یہ فقیر بیچارے کیا کریں، یہ تو ہماری صفت کا اثر ہے جو اس پر منعکس ہوا ہے“ رزقِ حلال کا آپ خصوصی احتمام فرماتے تھے اور فقیروں سے فرماتے تھے اگر تم ایک ہزار سال تک بھی ذکر کرتے رہو مگر تمہارا کھانا رزق حلال مال سے نہیں ہے تو تمہارا روحانی مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ جلانے کے لکڑی، برتن اور پانی بھی حلال ذرائع سے حاصل ہونی چاہیے۔

آپ فرماتے تھے کہ ہمارے طریقہ کا مدار تین باتوں پر ہے۔

1.  اہل سنت والجماعت کے عقائد پر ثابت قدم رہنا۔

2.   دوام آگاہی۔

3.   عبادت الٰہی۔

کسی نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت کیا ہے؟ جواب میں ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل اتباع کرنا۔ اس مخلص نے دوبارہ عرض کیا ممکن ہے کہ اتباع کرنیوالے کا مقصود حصول جنت یا جہنم کے عذاب سے نجات ہو؟ فرمایا ایسا تابعداری کرنے والا کچا ہے مکمل اتباع کرنے والا نہیں ہے۔

۲۵ جماد الثانی ۱۰۱۲ھ بروز ہفتہ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی کہ آپ بآواز بلند ذکر اسم ذات میں مشغول ہو گئے اور اللہ اللہ کہتے ہوئے روحانیت کا یہ آفتاب رحمت الٰہی کی شفق میں غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ عمر مبارک فقط ۴۰ چالیس برس ہوئی۔ آپ کا مزار پرانوار دہلی میں قطب روڈ پر قدم شریف کے نزدیک زیارت گاہ خاص و عام ہے۔